خاموش دعائیں


کہانیاں اکثر ان کہی دعاؤں اور ان دیکھے فیصلوں کی گواہ ہوتی ہیں۔ کچھ ایسے اتفاقات، جو بظاہر چھوٹے لگتے ہیں مگر وقت کی تحریر میں ایک بڑے موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی احمد کی ہے، جس کی زندگی کئی ان کہے جذبوں اور خاموش قربانیوں سے بنی ایک طویل دعا کی صورت تھی۔

گھر میں خوشی کا سماں تھا، کیونکہ احمد کی شادی میں پانچ دن باقی تھے۔ ہر طرف تیاریوں کی چہل پہل، رنگ برنگے کپڑے، خوشبوئیں اور قہقہے بکھرے ہوئے تھے۔ مگر دل کے کسی کونے میں احمد خاموش تھا۔ یہ شادی اس کی اپنی خواہش سے نہیں بلکہ حالات کی ایک لہر تھی، جو اسے بہا لے گئی تھی۔

یہ سب اس دن شروع ہوا جب اس کی بڑی بہن، نعیمہ، جو ایک معزز خاندان میں بیاہی گئی تھی، اپنے سسرال کے دباؤ سے بےبس ہو کر والدین کے پاس آئی۔ ان کی نند رخشندہ، سخت مزاج، کم تعلیم یافتہ اور تیز زبان والی لڑکی تھی۔ کئی رشتے آئے، مگر سب اس کی زبان یا رویے سے بھاگ نکلے۔

نعیمہ نے کہا، “ابو، انہوں نے میری زندگی عذاب بنا دی ہے۔ وہ تب تک مجھے سکون سے نہیں جینے دیں گے جب تک رخشندہ کی شادی احمد سے نہ ہو جائے۔”

والدین نے احمد سے بات کی۔ احمد، جو خوش شکل، خوش مزاج اور ایک اچھی سرکاری نوکری پر تھا، نے دل کی آواز دبا دی اور کہا، “اگر بہن کی زندگی آسان ہو سکتی ہے، تو میں راضی ہوں۔”

شادی ہو گئی۔ رخشندہ کی تلخ مزاجی کا اندازہ جلد ہی گھر والوں کو ہو گیا۔ ایک دن اس نے احمد کی ماں سے اونچی آواز میں کہا، “یہ گھر میرے اصولوں پر چلے گا!” سب خاموش ہو گئے۔ احمد نے اپنی قربانی کو وقت کے حوالے کر دیا۔

سال گزرے۔ کوئی اولاد نہ ہوئی۔ کئی علاج کروائے گئے۔ سات سال بعد امید بندھی۔ مگر رخشندہ کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ حمل کے دوران بلڈ پریشر خطرناک سطح پر پہنچ گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا، یا ماں بچے یا بچہ۔

احمد نے کہا، “ماں کی جان بچائیں۔”

مگر رخشندہ بولی، “نہیں۔ میں ماں بننا چاہتی ہوں۔ اللہ بہتر کرے گا۔”

اللہ نے عدنان کو دنیا میں بھیجا، اور رخشندہ دنیا سے چلی گئی۔

احمد نے عدنان کی پرورش کو ہی زندگی بنا لیا۔ والدین کا سہارا تھا، بہن نعیمہ کی محبت بھی۔ مگر دل کے ایک کونے میں وہی یونیورسٹی کے دنوں کی ایک ہنستی مسکراہٹ کہیں دفن تھی۔ وہ لڑکی… جس کی آنکھیں خاموشی سے بولتی تھیں۔ جس سے کبھی کوئی وعدہ نہیں ہوا، مگر دل نے کبھی اس کا انکار نہ کیا۔

عدنان بڑا ہوا، اور تعلیم کے لیے انگلینڈ چلا گیا۔ وہاں یونیورسٹی کے کیمپس میں ایک دن اس کی ملاقات انیلا سے ہوئی۔ انیلا کی فائلیں ہاتھ سے گریں، عدنان نے سنبھالیں۔ دونوں نے نظریں ملائیں، اور کچھ دل میں ٹھہر سا گیا۔ پھر کبھی لائبریری میں، کبھی کیفے میں چھوٹے چھوٹے لمحے، کچھ ان کہی باتیں، کچھ بےضرر ہنسی۔ مگر بات رکی رہی۔

تعلیم مکمل کر کے عدنان واپس آیا، اچھی سرکاری ملازمت ملی۔ احمد نے کہا، “بیٹا، اب تمہاری شادی کی فکر ہے۔ گھر میں عورت کی کمی ہے۔ اگر کوئی پسند ہو، تو مجھے بتاؤ۔”

عدنان نے نعیمہ پھوپھی سے کہا، “امی جی، ایک لڑکی تھی یونیورسٹی میں۔ انیلا۔ بہت سادہ، بہت سمجھ دار۔”

نعیمہ نے رابطہ نکالا۔ ایک روز وہ انیلا کے گھر گئیں۔ وہاں کی سادگی، محبت بھرا ماحول، سب کچھ دل کو بھا گیا۔

اب دن مقرر ہوا کہ احمد بھی ساتھ جائے۔ گیٹ پر چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ احمد نے جیسے ہی دروازے پر قدم رکھا، اور خاتون خانہ سامنے آئیں، تو اس کی سانس جیسے تھم گئی۔

وہی چہرہ… وہی آنکھیں… وہی خاموشی جو برسوں پہلے لائبریری کے کونے میں دیکھی تھی۔

“انسیا…” احمد کے لبوں پر جیسے خود بہ خود نام آ گیا۔

انسیا نے دھیمی آواز میں کہا، “اتنے سال ہو گئے احمد…”

اور وہ لمحہ جیسے دونوں کی زندگی میں سب کچھ بدل گیا۔ برسوں بعد، دل کی ایک بند کھڑکی کھلی۔ وہ انسیا، جو شوہر کے انتقال کے بعد اکیلی اپنی بیٹی کو پالتی رہی، وہ انیلا کی ماں تھی۔

عدنان اور انیلا کی نسبت طے ہوئی۔ نکاح کے دن احمد نے انسیا سے کہا، “کچھ دعائیں سچ میں خاموشی سے قبول ہو جاتی ہیں۔”

انسیا نے کہا، “اور کچھ کہانیاں… بیٹوں کی خوشی میں مکمل ہوتی ہیں۔”

یوں یہ کہانی، جو ایک قربانی سے شروع ہوئی تھی، دعاؤں کی روشنی میں مکمل ہوئی۔