نائلہ: ایک باوقار سفر

نائلہ ہمیشہ سے ایک پروقار، خوش شکل اور بااعتماد لڑکی تھی۔ اس کی گندمی رنگت، لمبا قد، اور متوازن شخصیت اسے دوسروں سے منفرد بناتی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور آنکھوں میں کچھ کر دکھانے کی جستجو نمایاں تھی۔ وہ اپنی عمر کے حساب سے غیر معمولی سنجیدہ تھی، مگر اس کی شخصیت میں ایک ہلکی سی شرارت اور خوش مزاجی بھی چھپی ہوئی تھی، جو اسے مزید دلکش بناتی تھی۔

وہ جب بی اے کے امتحانات دے رہی تھی، تب اس کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس کے والد، جو ایک فیکٹری میں ملازم تھے، ایک حادثے کی وجہ سے معذور ہو گئے۔ صرف جسمانی نہیں، بلکہ مالی طور پر بھی، کیونکہ اس حادثے کے بعد ان کا ذریعہ معاش بھی ختم ہو گیا۔ فیکٹری والوں نے رسمی طور پر ایک معمولی رقم دے کر انہیں رخصت کر دیا۔ گو کہ ان کا اپنا گھر تھا، جو کہ لاہور کے ایک مناسب علاقے، وحدت روڈ پر واقع تھا، مگر مستقل آمدنی کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہ تھا۔

یہ ایک سجا ہوا، صاف ستھرا اور سلیقے سے آراستہ مکان تھا۔ سفید دیواروں پر خوبصورت رنگوں کا امتزاج، مناسب فرنیچر اور گھر میں ایک عجیب سی گرم جوشی کا احساس تھا، مگر اب یہ سب چیزیں نائلہ کو بوجھ لگنے لگی تھیں، کیونکہ زندگی کی حقیقتیں اسے جھنجھوڑ رہی تھیں۔ اس کی والدہ، جو پہلے ہی گھر کے کام کاج اور چھوٹے بھائیوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی تھیں، اب شوہر کی تیمارداری بھی سنبھال رہی تھیں۔ ایسے میں گھر کے اخراجات کی ذمہ داری نائلہ کے کندھوں پر آن پڑی۔

نئی راہوں کی تلاش

نائلہ نے فوراً فیصلہ کیا کہ اسے نوکری کرنی ہوگی۔ اس نے کئی جگہوں پر درخواستیں دیں، مگر کہیں سے کوئی جواب نہ آیا۔ ہر گزرتا دن اس کے لیے پریشانی بڑھا رہا تھا۔ پھر ایک دن اس کے ماموں کا بیٹا، علی، ان کے گھر آیا۔ علی، جو نائلہ سے کچھ سال بڑا تھا، ایک اچھی کمپنی میں مینجمنٹ کی پوزیشن پر کام کر رہا تھا۔ نائلہ نے جب اسے اپنے حالات کے بارے میں بتایا، تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا:

“دیکھو، میں اپنے دوست وجاہت علی سے بات کرتا ہوں۔ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتے ہیں، اور میں نے ان کے ساتھ لمز میں ایک پروفیشنل کورس کیا تھا۔ ہم اچھے دوست بن گئے تھے۔ عمر میں مجھ سے کافی بڑے ہیں، مگر ہماری ذہنی ہم آہنگی بہت اچھی ہے۔ تم مجھے اپنا بائیوڈیٹا دے دو، میں ان سے بات کر کے دیکھتا ہوں۔”

نائلہ کو ایک امید کی کرن نظر آئی۔ اس نے فوراً اپنا ریزومے علی کو ای میل کر دیا۔ مگر علی کچھ دنوں کے لیے اتنا مصروف ہو گیا کہ اسے نائلہ کی نوکری کے بارے میں یاد ہی نہ رہا۔ پھر اچانک ایک دن وجاہت صاحب کا فون آیا، کسی اور کام کے سلسلے میں۔ باتوں باتوں میں علی نے نائلہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ وجاہت صاحب نے دلچسپی لی اور کہا:

“بھیج دو، دیکھ لیں گے۔”

علی نے فوراً نائلہ کا ریزومے انہیں بھیج دیا۔ اگلے ہی دن ایچ آر نے نائلہ کو انٹرویو کے لیے بلا لیا، اور کچھ دنوں بعد اسے نوکری کی پیشکش کر دی گئی۔ یہ خبر سن کر نائلہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

پہلی ملازمت: ایک نیا آغاز

نائلہ کا کام ایکسپورٹ کوالٹی کنٹرول، سیلز ڈیٹا رپورٹ تیار کرنا اور نئی سیلز لیڈز تلاش کرنا تھا۔ ابتدا میں، ہر نئی جگہ کی طرح، اسے بھی الجھن محسوس ہوئی، مگر نائلہ نے جلدی سیکھنا شروع کر دیا۔ وہ وقت پر آفس آتی، خاموشی سے اپنا کام کرتی اور واپس چلی جاتی۔ دفتر کا ماحول خوشگوار تھا، سب لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے، مگر نائلہ ابھی تک کسی سے زیادہ گھلی ملی نہیں تھی۔

وجاہت صاحب کی سالگرہ

ایک دن، جب وہ اپنی کیوبیکل میں کام کر رہی تھی، تو کیفے ٹیریا کی طرف سے ہلکی سی گہما گہمی کی آوازیں آنے لگیں۔ پہلے تو اس نے توجہ نہ دی، مگر پھر اس کی کولیگ، بینا، جو اب اس سے تھوڑی رسمی بات چیت کرنے لگی تھی، پاس آئی اور بولی:

“ارے نائلہ! تم یہاں بیٹھی ہو؟ چلو کیفے چلو، سرپرائز ہے!”

نائلہ نے حیرانی سے پوچھا: “کیسا سرپرائز؟”

بینا نے مسکرا کر کہا: “آج بوس کی سالگرہ ہے، سب مل کر انہیں سرپرائز دے رہے ہیں۔”

نائلہ بھی اٹھ کر اس کے ساتھ کیفے ٹیریا چلی گئی۔ وہاں سب لوگ خوشگوار موڈ میں تھے۔ ہنسی مذاق ہو رہا تھا، مگر ایک مسئلہ تھا—بوس کو اطلاع کون دے؟

اچانک، دفتر کے ایک نوجوان، اثر، جو کافی جولی اور زندہ دل تھا، نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا:

“یہ کام میں کرتا ہوں!”

پھر وہ تیزی سے وجاہت صاحب کے دفتر میں داخل ہوا اور پریشانی سے بولا:

“سر! باہر آئیں، فیکٹری کے ایک ورکر پر مشین گر گئی ہے!”

وجاہت صاحب گھبرا کر فوراً اٹھے اور تیزی سے کیفے ٹیریا کی طرف لپکے۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے دروازہ پار کیا، تو سب ملازمین نے زور سے نعرہ لگایا:

“ہیپی برتھ ڈے، سر!”

وجاہت صاحب لمحہ بھر کے لیے حیران رہ گئے، پھر ان کے چہرے پر ایک باوقار مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ یہ ہر روز کا معمول نہ تھا، مگر اس محبت بھرے سرپرائز نے انہیں واقعی خوش کر دیا تھا۔ انہوں نے سب کے ساتھ مل کر کیک کاٹا، سب کو عزت سے کیک پیش کیا اور خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔

ایک خوشخبری

تھوڑی دیر بعد، انہوں نے ایک مختصر مگر جذباتی تقریر کی:

“یہ فیکٹری نہیں، بلکہ ایک خاندان ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، اور مجھے خوشی ہوئی کہ آپ سب نے اس موقع کو یاد رکھا۔ میں آپ سب کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ پچھلے تین ماہ میں ہماری محنت کا نتیجہ بہت اچھا آیا ہے۔ کچھ نئے ملازمین،” (یہ کہتے ہوئے ان کی نظر نائلہ پر ٹھہری) “نے بھی غیر معمولی محنت کی ہے، جس کی بدولت ہماری کمپنی کا منافع بڑھا ہے۔ تو میں چاہتا ہوں کہ اس خوشی کو آپ سب کے ساتھ بانٹوں۔ انشاءاللہ، آپ سب کو بونس ملے گا!”

یہ سنتے ہی سب ملازمین خوشی سے جھوم اٹھے۔ نائلہ کے دل میں ایک عجیب سا اطمینان اترا۔ اس نے اپنے سفر کی پہلی کامیابی حاصل کر لی تھی، مگر اسے معلوم تھا کہ یہ تو بس آغاز ہے۔

ایک نئے سفر کی شروعات

نائلہ جب اس دن دفتر سے نکلی، تو اس کے قدموں میں ایک نیا اعتماد تھا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرائی—یہ ایک چھوٹا سا قدم تھا، مگر اس کے مضبوط حوصلے اور عزم کی پہلی جیت۔

   جاری ہے

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.