دانی

دانی

 

ساؤتھ پنجاب کے دور افتادہ گاؤں میں، چوہدری صاحب اور چودھرائن کی وسیع حویلی کے سائے تلے دو چہرے ہر دم مصروف نظر آتے تھے—کریمو اور بشیرہ۔ یہ دونوں خالص وفاداری اور دیانت کی تصویر تھے۔ چوہدری صاحب ان کی محنت کے قدردان تھے، اور چودھرائن کے لیے بشیرہ ایک بیٹی کی مانند تھی۔

 کریمو (کریم بخش) ، عمر رسیدہ اور معمولی صورت کا انسان تھا، لیکن اس کی بیوی بشیرہ (بشیر فاطمہ) نہ صرف خوش شکل تھی بلکہ نرمی اور وقار کا مجسمہ تھی۔ برسوں بعد، اللہ نے ان کو ایک بیٹی سے نوازا— دونیا، جو گاؤں میں دانی کے نام سے جانی گئی۔

 بشیرہ نے ماں بننے کے بعد ایک عزم کیا:

“میں اپنی دانی کو پڑھاؤں گی، لکھاؤں گی، اور اسے دنیا کے سہارے کی ضرورت نہیں رہنے دوں گی۔”

 دانی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ قرآن، اردو، سینہ پرونا، سب کچھ وہ دل لگا کر سیکھ رہی تھی، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کریمو کی طبیعت بگڑنے لگی۔ ڈاکٹری مشورے گاؤں تک نہیں پہنچے، بس خبریں تھیں کہ اسے کینسر ہے۔ اور پھر ایک شام، کریمو دنیا سے چلا گیا۔

 جنازے کے بعد، دانی باپ کے جوتوں کو گلے لگا کر بیٹھ گئی۔

“اب کون کہے گا دانی پتر، تیری ماں تھک گئی، چولہا میں جلا دوں؟”

 اب صرف ماں رہ گئی تھی۔ مگر زیادہ دن وہ بھی نہ ٹھہری۔ ایک دن، بھاوج کے انتقال پر دوسرے گاؤں گئی، اور واپسی پر سڑک پار کرتے ہوئے ایک تیز رفتار ٹرک نے زندگی چھین لی۔ جب گاؤں والے بشیرہ کی لاش لے کر آئے، تو دانی دروازے پر بیٹھے بس خالی آنکھوں سے سب دیکھتی رہی۔

 نہ آنسو، نہ کوئی چیخ، بس جیسے روح کہیں اور جا چکی ہو۔

 چودھرائن نے پیار سے کہا،

“پتر، اکیلی رہ گئی ایں، آ جا، ایہہ وی تیرا ہی گھر اے۔”

 

مگر دانی نے نظر جھکا کے کہا:

“بیگم صاحبہ، میرے ماں باپ نے جس مٹی میں پسینہ بہایا، وہ میرا گھر ہے۔ میں وہیں رہوں گی۔”

 اب دانی نے فیصلہ کر لیا تھا:

“یہ گاؤں، یہ حویلی، یہ دنیا… اب میری ذمہ داری، صرف میری ہے۔”

 کامی (چوہدری کامران)، چوہدری صاحب کا اکلوتا بیٹا، لاہور کے ایک بڑے کالج سے تعلیم مکمل کر کے واپس آیا۔ بشیرہ کے چہلم میں اس نے مختصر شرکت کی۔ دانی کے دل میں کچھ حلچل ہوئی، مگر وہ خاموش رہی۔

 چند سال بیت گئے۔ کامی کے استقبال کے لیے حویلی میں جشن رکھا گیا۔ گاؤں کے لڑکے، جو تعلیم کی جگہ عیش و عشرت میں گم تھے، محفل میں شریک ہوئے۔ وہی لڑکے جن سے گاؤں کی کوئی لڑکی محفوظ نہ رہی تھی۔ جب انہوں نے دانی کو دیکھا—سفید جوڑے میں، سادہ سی مگر سراپا وقار—تو ہنسی مذاق شروع کر دی:

 “اوئے، ایہ تے ساڈی نظر توں بچ گئی! ایہ کون سی کتابی شہزادی اے؟”

“کامی، تے اس نوں چھپا کے رکھیا ہویا اے؟ کمال اے، شہری باو بن گیا اے!”

خاص طور پر ویدو (چوہدری وحید)، بڑے چوہدری کا بگڑا ہوا بیٹا، کامی کا دوست بھی تھا، مگر اس دن حد سے بڑھ گیا:

 “کی گل اے کامی، ایہ تے توں سانوں دسیا ای نئیں! کتھے چھپائی ہوئی سی ایہ سونے دی مورت؟”

 کامی کے چہرے پر تناؤ آ گیا۔ وہ گاؤں کا ہی لڑکا تھا، ایسے مذاق اس کے لیے نئے نہیں تھے، مگر دانی کے بارے میں سن کر ایک عجیب سی چبھن محسوس ہوئی۔ کچھ بولا نہیں، بس خاموشی سے محفل سے اٹھ کر چلا گیا۔

 رات کے وقت، دانی اب بھی حویلی کے کاموں میں لگی تھی۔ چودھرائن نے کئی بار کہا، “پتر، کھا لے کچھ، سارا دن کچھ کھایا نئیں!”

وہ بس کہتی، “بس بیگم صاحبہ، ابھی کھا لوں گی۔”

 شاید وہ کسی ایک شکریہ کی منتظر تھی… کسی کی ایک نظر، جو ابھی تک نہیں ملی تھی۔

 آخرکار جب سب کام ختم ہو گئے، دانی نے اجازت لی اور گھر جانے لگی۔ آنکھوں میں نمی تھی، ہونٹ بند، دل میں بےشمار سوالات۔

 صبح پھر وہ حویلی میں موجود تھی، حسب معمول۔ دوپہر کی تیز دھوپ، سنّاٹا، اور باورچی خانہ۔

 

وہ تنہا برتن سمیٹ رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی:

“دانی…”

 

وہ مڑی نہیں۔ کامی قریب آیا، آہستہ بولا:

“تم بہت کچھ سنبھال لیتی ہو۔ ماں کہہ رہی تھی کہ تم نے سب کچھ تھام رکھا ہے… تم نے میرا گھر چلایا ہے، میری ماں کو بیٹیوں جیسا سہارا دیا ہے۔”

 دانی نے بس سر جھکا دیا۔

 کامی بولا، “بتاؤ نا، تم اور کیا کچھ کر سکتی ہو؟”

 اس لمحے دانی نے پہلی بار چہرہ مکمل اٹھایا۔ سفید جوڑا، دھوپ میں چمکتی رنگت، آنکھوں میں تھکی ہوئی روشنی، مگر چہرے پر وہی حیا، وہی وقار۔

 کامی نے بےاختیار قدم آگے بڑھایا۔ دانی نے آہستہ سے اس کے دائیں گال پر بوسہ دیا۔ آنکھیں جھکا لیں، ہونٹ لرزے، اور آہستہ سے سرگوشی کی:

 “میں بہت کچھ کر سکتی ہوں… بس کوئی سمجھے تو سہی۔”

 اور وہ گھر کی طرف چل دی—

   اکیلے مگر اب مکمل