فرہاد کی شادی

آج اُس خاندان میں نئی بہو کی آمد متوقع تھی۔ ایک خوشحال، باوقار اور معاشرتی لحاظ سے مستحکم گھرانہ۔ مگر محلّے بھر میں چہ مگوئیاں جاری تھیں۔ خواتین کے حلقے میں خاص طور پر یہ بات گردش کر رہی تھی کہ دلہن کراچی کے ایک نہایت پسماندہ علاقے سے آ رہی ہے۔ سب کو حیرت اس بات پر تھی کہ ایسا قابل، خوش شکل، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باعزت منصب پر فائز لڑکا فرہاد، آخر ایسی جگہ سے رشتہ کیوں لایا؟
کہیں نا کہیں اس تمام گفتگو میں حسد کی ایک ہلکی سی پرچھائیں بھی محسوس ہو رہی تھی۔
خیر، فرہاد کے گھر والوں نے نہایت سادگی سے بہو کو رخصت کرا کے گھر لے آئے۔ لیکن ولیمے کا انتظام بہت شاندار تھا۔ پورا خاندان اور محلہ مدعو تھا۔ خواتین خاص طور پر پوری تیاری کے ساتھ آئیں — ایک تجسس، ایک جلن، ایک تجزیہ لے کر — کہ دیکھیں تو سہی وہ کیسی ہے، جو فرہاد کی بیوی بن گئی!
جب سب نے سٹیج پر نظر ڈالی، تو گویا سب کی زبانیں خاموش ہو گئیں۔ دلہن بےحد خوبصورت تھی۔ لمبا قد، بڑی بڑی روشن آنکھیں، گورا چٹا رنگ، انتہائی باوقار انداز، اور سب سے بڑھ کر وہ اندازِ گفتگو، جس سے اس کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت واضح ہو رہی تھی۔
وہ خواتین جو دل میں جلی کٹی سنانے آئی تھیں، قریب آئیں، رسمی مبارکباد دی اور باتوں باتوں میں اصل مدعا کی طرف آ گئیں۔
“کہاں کی رہنے والی ہو بیٹا؟ کراچی کی؟ کس علاقے کی؟”
دلہن نے نہایت اعتماد سے اپنے علاقے کا نام لیا۔ ایک خاتون جو ذرا طنزیہ انداز رکھتی تھیں، فوراً بولیں، “ارے وہاں تو ہماری ماسی رہتی تھی، جب ہم کراچی میں تھے۔”
دلہن نے مسکرا کر کہا،
“جی، وہاں پر ایسے ہی لوگ رہتے ہیں — چھوٹے موٹے کام کرنے والے، محنت کش لوگ۔ ہم بھی اپنے گھر میں زردوزی کا کام کرتے تھے، دوپٹے تیار کرتے، والدہ گھر کے کھانے پکا کر لوگوں کو سپلائی کرتیں، کبھی کبھی خود جا کر بھی پکا آتیں۔ والد صاحب ایک فیکٹری میں معمولی ملازمت کرتے تھے۔”
یہ سب وہ ایسے لہجے میں کہہ رہی تھی جس میں فخر تھا، وقار تھا، اور سب سے بڑھ کر ایک زبان کی شستگی تھی — ایک ایسی اردو اور انگریزی کا امتزاج، جو کسی بھی اعلیٰ تربیت یافتہ فرد کی پہچان ہو سکتی ہے۔
اب سب خواتین کا انداز بدل گیا۔ وہ جو باتیں چبھانے آئی تھیں، خود اندر ہی اندر شرمندہ ہونے لگیں۔
دلہن نے مسکرا کر بات جاری رکھی،
“جی ہاں، ہمارے گھر میں برسات میں پانی بھی آ جاتا ہے، مگر میرے والدین نے کبھی ہماری تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ میں نے کراچی یونیورسٹی سے شماریات میں ماسٹرز کیا، پھر منسٹری میں ملازمت اختیار کی۔”
“فرہاد کے ایک عزیز بھی منسٹری میں کام کرتے تھے، وہیں سے میرے بارے میں معلومات ملیں، اور رشتہ آیا۔ میرے والدین نے سب کچھ صاف صاف بتایا، کچھ نہیں چھپایا۔”
“مجھے اپنے والدین پر فخر ہے۔ میں جانتی ہوں کہ کچھ لوگوں نے ضرور سوچا ہوگا کہ ایسے گھرانے سے رشتہ کیوں کیا گیا، لیکن رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔”
پھر وہ ذرا نرم لہجے میں گویا ہوئیں،
“میری اور فرہاد کی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ والدین نے کہا تو میں نے تسلیم کیا، کیونکہ مجھے یقین تھا، جیسے میری ماں میرے لیے بہترین کپڑے چن کر لاتیں، والد بہترین جوتے لاتے، ویسے ہی وہ میرے لیے بھی بہترین شوہر چنیں گے۔”
“میرے یونیورسٹی اور آفس کے لوگ بھی حیران تھے کہ میں نے اتنی سادگی سے یہ فیصلہ کیسے قبول کیا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ دل کا سکون شاندار گھروں یا بڑے بنگلوں میں نہیں ہوتا۔ انسان اندر سے پُرامن ہو، یہی اصل ماحول ہے۔”
“چاہے آپ چار ہزار گز کے بنگلے میں رہیں یا اسی گز کے مکان میں، نیند تو ایک ہی بستر پر آتی ہے، اور پیٹ بھی وہی چھے سات سو گرام کھانے سے ہی بھرتا ہے۔”
“بس، مجھے آپ سب سے مل کر خوشی ہوئی۔ انشاءاللہ ہمارا تعلق بہت اچھا رہے گا۔ فرہاد کی امی اور بہنوں نے آپ سب کے بارے میں بہت اچھا بتایا تھا۔”
یہ سن کر وہ خواتین جو باتیں سنانے آئی تھیں، ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔ شرمندگی ان کے چہروں پر نمایاں تھی۔ اُن کی زبانیں بند ہو چکی تھیں۔ اور وہ خاموشی سے، نظریں چراتے ہوئے، وہاں سے اٹھ کر چل دیں۔
Leave a Reply